ابد کے سمندر کی موج ابد کے سمندر کی اک موج جس پر …
ابد کے سمندر کی اک موج جس پر مری زندگی کا کنول تیرتا ہے
کسی ان سنی راگنی کی کوئی تان
آزردہ، آوارہ، برباد
جو دم بھر کی آ کر مری الجھی الجھی سی سانسوں کے سنگیت میں چھل گئی ہے
زمانے کی پھیلی ہوئی بیکراں وسعتوں میں یہ دو چار لمحوں کی میعاد
طلوع و غروب مہ و مہر کے جادوئی تسلسل کی دو چار کڑیاں،
یہ کچھ تھرتھراتے اجالوں کا روماں
کچھ سنسناتے اندھیروں کا قصہ
یہ جو کچھ میرے زمانے میں ہے اور یہ جو کچھ کہ اس کے زمانے میں میں ہوں
یہی میرا حصہ ازل سے ابد کے خزانوں سے ہے
بس یہی میرا حصہ!
یہ صہبائے امروز، جو صبح کی شاہزادی کی مست انکھڑیوں سے ٹپک
بدرو حیات آ گئ ہے !
یہ ننھی سی چڑیاں جو چھت میں چہکنے لگی ہیں
ہوا کا یہ جھونکا جو میرے دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزا گیا ہے
پڑوسن کے آنگن میں، پانی کے نلکے پہ یہ چوڑیاں جو چھنکنے لگی ہیں
یہ دنیائے امروز میری ہے،
میرے دل زار کی دھڑکنوں امیں ہے
یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں، یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں
انہیں چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے
مجید امجد
[ad_2]