یقین ہے کہ گماں ہے ، مجھے نہیں معلوم یہ آگ ہے کہ …
یہ آگ ہے کہ دھواؑں ہے ، مجھے نہیں معلوم
یہ ہر طرف ہے کوئی محفل طرب برپا
کہ بزم غم زدہ گان ہے ، مجھے نہیں معلوم
لیے تو پھرتا ہوں اک موسِم ِ وجود کو میں
بہار ہے کہ خزاں ہے ، مجھے نہیں معلوم
وہ رنگِ گل تو اُسی خاک میں گھلا تھا کہیں
مگر مہَک وہ کہاں ہے ، مجھے نہیں معلوم
خبر تو ہے کہ یہیں قریہ ء ملال بھی ہے
یہ کون محوِ فغاں ہے ، مجھے نہیں معلوم
میں تجھ سے دور اسی دشتِ نا رسی میں ہوں گم
ادھر تو نوحہ کناں ہے ، مجھے نہیں معلوم
یہ کشمکش جو من و تَو کے درمیاں ہے ، سو ہے
میان سود و زیاں ہے ، مجھے نہیں معلوم
یہ داغ ِعشق جو مٹتا بھی ہے چمکتا بھی ہے
یہ زخم ہے کہ نشاں ہے ، مجھے نہیں معلوم
گذرتا جاتا ہوں اک عرصۂ گریز سے میں
یہ لا مکاں کہ مکاں ہے ، مجھے نہیں معلوم
رواں دواں تو ہے یہ جُوے زندگی ہر دم
مگر کدھر کو رواں ہے ، مجھے نہیں معلوم
( اَبــرارؔ احمـــد )