فیض احمد فیضؔ “حذر کرو مرے تن سے” ۔ سجے تو کیسے س…
“حذر کرو مرے تن سے”
۔
سجے تو کیسے سجے قتلِ عام کا میلہ
کسے لُبھائے گا ،میرے لہو کا واویلا
مِرے نزار بدن میں لہُو ہی کتنا ہے
چراغ ہو کوئی روشن، نہ کوئی جام بھرے
نہ اِس سے آگ ہی بھڑکے، نہ اِس سے پیاس بُجھے
مِرے فگار بدن میں لہُو ہی کتنا ہے
مگر وہ زہرِ ہلاہل بھرا ہے نس نس میں
جسے بھی چھیدو، ہر اِک بُوند قہرِ افعی ہے
ہر اِک کشید ہے، صدیوں کے درد و حسرت کی!
ہر اِک میں، مُہر بَلَب غیض و غم کی گرمی ہے
حذر کرو مِرے تن سے ، یہ سم کا دریا ہے
حذر کرو، کہ مِرا تن وہ چوبِ صحرا ہے
جسے جلاؤ تو صحنِ چمن میں دہکیں گے
بجائے سرو و سُمن میری ہڈّیوں کے بَبُول
اِسے بِکھیرا تو، دشت و دَمَن میں بِکھرے گی!
بجائے مُشکِ صَبا، میری جانِ زار کی دُھول
حذر کرو ، کہ مِرا دل لہُو کا پیاسا ہے
فیض احمد فیضؔ