( غیــر مطبــوعــہ ) بات کرنی کوئی درباری نہيں آت…
بات کرنی کوئی درباری نہيں آتی مجھے
شعر کہہ لیتا ہوں’ فن کاری نہيں آتی مجھے
جس طرح تُو نے مِرے ساتھ بغاوت کی ہے
اے مَحبّت ! یہ طرح داری نہيں آتی مجھے
میں نہ کہتا تھا مجھے مر کے دِکھاؤ پہلے
زندہ لاشوں پہ عزا داری نہيں آتی مجھے
میں نے رو رو کے منا ہی لیا آخر اُس کو
وہ سمَجھتا تھا ‘ ادا کاری نہيں آتی مجھے
جس جگہ میرے شب و روز بسر ہوتے تھے
اب تو اُس گھر سے بھی افطاری نہيں آتی مجھے
میں نے اشکوں سے نمُو دار کِیا جنگل کو
لوگ کہتے تھے’ شجر کاری نہيں آتی مجھے
جس قدَر آتی ہے’ اِک ” اُردو زباں ” آتی ہے
اور یہ بات کہ بازاری نہيں آتی مجھے
یار کا یار ہوں ‘ دشمن کا ہوں دشمن ‘ عــامــیؔ !
برملا کہتا ہوں : غدّاری نہيں آتی مجھے
( عِــــمران عــامــیؔ )