#hamidnaved اتنی امیر ہونے کے باوجود بھی طوائف گیری کرتی ہے جو سنتا منہ میں ا…
اتنی امیر ہونے کے باوجود بھی طوائف گیری کرتی ہے
جو سنتا منہ میں انگلیاں دبا لیتا
کوئی شوقیہ جسم کیسے بیچ سکتا ہے
یہاں جتنی بھی طوائفیں تھیں سب کی اپنی مجبوریاں تھیں
ہر ایک کا الگ راز تھا
پر وہ تو کہتی تھی کہ مجھے خوشی ملتی ہے لوگوں کو خوش کر کے
ہفتے کے پانچ دن میڈم فرزانہ کے کوٹھے میں رہتی
جتنے پیسے اور تحفے ملتے
اس میں میڈم کا حصہ نکالنے کے بعد باقی سب اپنی ساتھی طوائفوں میں بانٹ دیتی تھی
اصلی نام کسی کو پتا نہیں تھا
میڈم کے پاس آئی تھی میڈم نے نام پوچھا،
جواب ملا نام میں کیا رکھا ہے
میڈم نے ‘بنو’ نام رکھنا چاہا
جواب ملا کوئی قلمی نام ہونا چاہیے
جیسے
‘امراؤ جان ادا’
پھر یہی نام رکھ دیا گیا
کچھ دن بعد وہ امیروں کی جان ہی بن چکی تھی
نزاکت انتہا کی تھی
اس پر وہی مثال صادق آتی تھی
کہ
خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے
جب کوئی مرد اسکا جسم نوچتا اسکے قہقہے پوری طوائف نگری میں گونجتے تھے
جو لڑکیاں گاہک نا ملنے سے آپس میں گپیں لگا رہی ہوتی تھیں
وہ ایک دوسرے کی طرف ذومعنی انداز میں دیکھ کر ہنستیں تھیں
لیکن اسکی ہنسی بھی عجیب تھی جیسے کوئی برستی بارش میں سورج کا دیدار نصیب ہوتا ہے
پانچ راتیں کوٹھے کے لیے وقف تھیں اسکی،
اگلی دو راتیں کہیں سے ایک بڑی سی گاڑی آتی
وہ اس میں بیٹھ کر چلی جاتی
ایک رات کے آخری پہر کوٹھے میں سوتے سوتے چلانے لگ گئی
بڑی مشکل سے اسے قابو کیا گیا
اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے جا رہے تھے
سکون آور دوا نے اسے جلد ہی خوابوں کی نگری میں پہنچا دیا
”
‘نیلی’
کہاں ہو تم
سردار عاطف نے اسے پکارا
وہ بدن پر تولیہ لپیٹے غسل خانے سے باہر نکل آئی
غسل خانہ، خواب گاہ کے ساتھ منسلک تھا
دونوں کی شادی کو چار سال ہوچکے تھے
عاطف آج بھی اسے پہلے دن کی طرح چاہتا تھا
نیلوفر کی ابھی تک کوئی اولاد نہیں پیدا ہوئی
سب نے عاطف پر دباؤ ڈالا کہ نیلوفر کو طلاق دے دو
وہ نہیں مانا تو کہا گیا کہ اسے بھی رکھ لو اور دوسری شادی کر لو
لیکن عاطف نے کسی کی نہیں سنی
وہ محبت ہی انتہا کی کرتا تھا
چار سال بعد بھی ویسی ہی محبت،
نیلوفر بھی جان وارتی تھی اس پر،
آج جب بلایا تو لہجے میں عجب درد تھا
نیلی کتنا پیار کرتی ہو مجھ سے
سرتاج
وہ تنہائی میں سرتاج بلاتی تھی
اتنا کہ سر کاٹ کے قدموں میں رکھ دوں
اگر میں تم سے کچھ مانگوں تو انکار تو نہیں کروگی
بے اختیار اسنے نفی میں سر ہلا دیا
سوچ لو!
سرتاج!
اسنے شکوہ کناں لہجے میں پکارا
مجھے کسی کی ایک رات چاہیے
کیا؟
نیلوفر کچھ نا سمجھ پائی
میں ایک رات ‘فہمی’ کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں
کیا اس کے حواس ٹھکانے نا رہے
فہمی نیلوفر کی چھوٹی بہن
یہ کیا کہہ رہے ہو تم
وہ حیرت اور صدمے سے گنگ اسکی طرف دیکھتی رہی
ہاں وہ کہتا رہا
میں نے صرف تم سے محبت کی ہے
‘نیلی’
پر میں دن رات اندر جلتا رہتا ہوں
تڑپتا ہوں راتوں کو نیند نہیں آتی
ہاں نیلی بس ایک رات اسکے ساتھ چاہیے
نیلی ایک رات بس،
نیلوفر نے اٹھ کر تھپڑ لگا دیا
عاطف زور سے رو رو کر کہنے لگا
مارو مجھے مارو میں اسی قابل ہوں
اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیا
نیلوفر جتنا بھی غصہ کرتی
مگر جو وہ پیار کرتی تھی وہ بہت بھاری تھا
کچھ دن گزر گئے
عاطف ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا
نیلوفر سے اسکی حالت دیکھی نا جاتی
ایک دن عاطف لوٹا تو اسنے کچھ فائلیں اسکی گود میں ڈالیں
اور چپ کر کے پلٹ گیا
اسنے فائل کور کھولا تو ایک خط گر پڑا
پتا چلا کہ عاطف نے فیکٹری گھر سب کچھ اسکے نام کر دیا ہے
اور مانگا کیا ہے
بس ایک رات ہی تو مانگی تھی
کچھ عرصہ گزر گیا
پتا چلا کہ سب سے بڑی خوشخبری ملی ہے
یعنی نیلوفر حمل سے ہے
پھر پانچ چھ مہینے اور گزر گئے
عاطف ویسے ہی ہڈیاں بنتا جا رہا تھا
لیکن نیلوفر کا خیال وہ حد سے بڑھ کر رکھتا
اسکے باوجود عاطف کے چہرے پر مسکان نہیں آتی تھی
پھر ایک دن عاطف نے کہا کہ نیلی اب فہمی کو گھر بلا لو
وہ تمہارا خیال رکھے گی
نیلوفر کچھ نا سمجھتے ہوئے بہت کچھ سمجھ گئی
لیکن کبھی کبھی کچھ رشتے بچانے کے لیے کچھ رشتے قربان کرنے پڑتے ہیں
نیلوفر نے فہمی کو گھر بلایا تھا
کہا تھا کہ اب سات مہینے کا بچہ ہوگیا ہے
عاطف تو سارا دن باہر ہوتا ہے
کوئی تو ہو جو میرا خیال رکھے
فہمی سارا دن چہکتی رہتی تھی
کہتی نام فہد رکھنا ہے
پھر اسکے کپڑے سیتی،
کئی جوڑے کپڑے بنا لیے اسنے
سارا دن فہد فہد کا نام لیتی
ایک رات نیلوفر نے فہمی کو عاطف کو کھانا دینے بھیجا
عاطف بیڈروم میں بیٹھا تھا
فہمی واپس پلٹنے لگی
تو دروازے میں نیلوفر کھڑی تھی
عاطف!
عاطف نے چونک کر اسے دیکھا
بس ایک رات
نیلوفر نے سرد اور سپاٹ لہجے میں کہا
فہمی کچھ نا سمجھتے ہوئی بولی
باجی!
یہ ایک رات کونسی ہے؟
اسی وقت دروازہ بند ہوگیا
باہر سے کنڈی لگنے کی آواز آئی
فہمی کچھ نا سمجھتے ہوئے بہت کچھ سمجھ گئی
دوڑ کر دروازے کے پاس پہنچی تھی
باجی دروازہ کھولو
پلیز باجی دروازہ کھولو
باجی
باجی
دروزہ کھولیں نا پلیز باجی
اسکے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں
باجی باجی
اور باہر نیلوفر اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کے مر رہی تھی
غم کی شدت کے اسکے رونے کی آواز کو ہی گلے میں دبا دیا تھا
دو تین گھنٹوں بعد عاطف کی آواز آئی
دروزہ کھول دو
نیلوفر کو دروازہ کھولتے ایسا لگا جیسے ہاتھ کام نا کر رہے ہوں
عاطف نے باہر آتے ہی
نیلوفر کو چومنا شروع کر دیا
نیلوفر جلدی سے اندر بھاگی
فہمی
بستر پر پڑی تھی بالکل برہنہ
کپڑے نیچے پڑے تھے
اسنے جلدی سے کہا
فہمی مجھے معاف کر دو میں مجبور تھی
اسنے فہمی کو کپڑے پہنائے
فہمی جیسے سکتے میں پڑی تھی
اٹھو میری بچی شاباش مجھے معاف کر دو
باہر کہیں پانی گرنے کی آواز آرہی تھی
عاطف نہا رہا تھا
نیلوفر نے فہمی کو زبردستی کھڑا کیا
اور بیڈ سے پاؤں نیچے اتارے
ایک دم سے فہمی نے باہر چھلانگ لگا دی
اور گھر سے باہر نکل کر
کہیں اندھیرے میں گم ہوگئی
نیلوفر باہر کو لپکی
کہیں بھی اسے فہمی نظر نہیں آئی
اسنے فوراً سے اندر آکر عاطف کو بتایا
عاطف جو غسل خانے میں تھا جلدی سے کپڑے پہن کر باہر نکلا
پھر دونوں باہر گاڑی میں فہمی کو تلاش کر رہے تھے
نیلوفر نے گھر کال کی
امی سے فہمی کا پوچھا
فہمی تو تمہارے ساتھ تھی
اسنے بتایا کہ میری طبیعت خراب ہوگئی تھی
فہمی میڈیکل سٹور سے دوا لینے چلی گئی تھی
عاطف کہیں باہر تھے
کافی دیر ہوگئی ابھی تک نہیں لوٹی
پوری رات آنکھوں میں کٹ گئی
انھوں نے صبح دوبارہ فون کیا تھا
ابھی تک وہ گھر نہیں پہنچی تھی
صبح تھانے رپورٹ کرانے گئے تھے
وہاں پتا چلا کہ کسی لڑکی کو رات کسی تیز رفتار گاڑی نے کچل دیا تھا
اور گاڑی والا گاڑی بھگا کر چلا گیا تھا
وہ جلدی سے مردہ خانے پہنچے
تازہ لاش دیکھتے ہی نیلوفر بے ہوش ہوچکی تھی
ہاں وہ فہمی ہی تو تھی
شام تک پتا چلا کہ یہ خودکشی اور زیادتی کا کیس ہے
کسی نے فہمی کے ساتھ زیادتی کی تھی جس کے نتیجے میں اسنے خودکشی کر لی
زیادتی کرنے والوں کی تلاش جاری تھی
نیلوفر گھر آچکی تھی
اور ابھی تک چپ چاپ تھی
وہ اٹھی اور کچن میں جا پہنچی
عاطف اسے پکار رہا تھا
نیلی تم کہاں ہو
وہ کچن کی طرف آیا تو دیکھا کہ نیلوفر نے چھری دستانے سے پکڑی ہوئی ہے
وہ چلایا نیلی رک جاؤ
لیکن اسی وقت نیلوفر اپنے پیٹ میں چھری گھونپ چکی تھی
ہسپتال لے جایا گیا
ڈاکٹر نے بتایا کہ چھری بچے کے پیٹ میں جا گھسی تھی
بچے کو بچانا ناممکن ہے
ماں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں
بچے کی موت کی خبر نے عاطف کا دماغ الٹا دیا
چار سال سے زائد بچے کا انتظار اور بچہ مر گیا
کچھ دن گزر گئے
نیلوفر اپنے میکے میں تھی
خاموش بالکل خاموش
عاطف پاگل خانے جا چکا تھا
”
آنکھ کھل چکی تھی
امراؤ جان ادا نے پیٹ پر ہاتھ پھیرا
وہاں چھری اور ٹانکوں کا نشان موجود تھا
شام ہونے والی تھی
اسنے اٹھ کر نہایا دھویا
آج بھی اسکے گاہک پورے تھے
ہاں ایک رات کے لیے ہی تو وہ آتے ہیں
آخر امراؤ جان ادا نے ایک رات کی قیمت بھی تو چکانی تھی