( غیــر مطبــوعــہ ) اشک جو آنکھ سے جدا ہُوا ہے شام کے طاق پر دَھرا ہُوا ہے سا…
اشک جو آنکھ سے جدا ہُوا ہے
شام کے طاق پر دَھرا ہُوا ہے
سانس میری بحال ہو تو کہوں
دیپ سے کیا مکالمہ ہُوا ہے
راستہ بھول کر مِلی منزل
لغزشِ پا سے فائدہ ہُوا ہے
وہ کسی پر ابھی کُھلے ۔۔۔۔ نہ کُھلے
آئنے پر مگر کُھلا ہُوا ہے
تتلیوں کی مُـــراد بَر آئی
ڈالی ڈالی دیا جلا ہُوا ہے
رنگ برسا تو زرد پیڑوں کو
بات کرنے کا حوصلہ ہُوا ہے
پھول کیسے کِھلے ہیں باغوں میں
تجھ کو دیکھا تو آئنہ ہُوا ہے
( خُـــورشــــیـدؔ ربّــانی )