#hamidnaved کراچی میں میرے ایک جاننے والے کے ہمسایہ میں ایک فیملی تھی جس میں د…
کراچی میں میرے ایک جاننے والے کے ہمسایہ میں ایک فیملی تھی جس میں دو بیٹیاں اور ایک اُنکے والد تھے.. والدہ پہلے ھی وفات پا گئی تھیں.. بڑی بیٹی کی شادی کے بعد والد جلد از جلد چھوٹی بیٹی فاطمہ کا فرض بھی پورا کر دینا چاہتے تھے لہذا اپنی بہن کے بیٹے سے جو کہ پاکستان سے باہر کمانے گیا ھُوا تھا نکاح کر دیا اور رخصتی کچھ سال پر مؤخر کر دی کیونکہ فاطمہ تب صرف سترہ سال کی معصوم بچی تھی.. اللّٰہ کی حکمتیں اللّٰہ ھی جانے، ابھی بچی کا نکاح کِیا ھی تھا کہ کچھ دن بعد والد بھی ایک ایکسیڈینٹ میں چل بسے.. والدہ کا پیار بھی نہ پا سکی اور اب والد بھی گئے… لڑکی ھونے کے ساتھ بھولی اور معصوم بھی اتنی تھی کہ صِرف ایک دوست تھی اُسکی وہ بھی اُسکی کزن… لہذا کچھ ماہ اپنے گھر رکھنے کے بعد اُسکی بہن اور بہنوئی نے پھوپھو سے رخصتی کی بات کی… لڑکے کو بلوایا گیا اور رخصتی کر دی گئی…
بہت خوش تھی کہ پھوپھو کے گھر جا رھی ھُوں کیونکہ بچپن سے پھوپھو نے بہت پیار دیا تھا لیکین بچی کیا جانتی تھی کہ رشتہ داروں کا پیار تب تک ھی زندہ رہتا ھے جب تک آپکے والدین سلامت ھوں.. والدین کی وفات کے ساتھ رشتہ داروں کی ہمدردیوں کا بھی جنازہ اُٹھ جاتا ھے.. لڑکا ایک ہفتے بعد واپس چلا گیا اور وہاں سے جا کر طلاق کے کاغذات بھیج دیئے اور ماں کو بتا دیا کہ میں نے آپکو بناء بتائے یہاں شادی کر لی تھی اور میں خوش ھُوں اپنی بیوی کے ساتھ.. اب ماں نے اپنی تربیت چُھپائی بیٹے کی اِس خباثت پر پردہ ڈال کر اور فاطمہ کو خط کا نہ بتایا بس ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے اُس معصوم پر یہ سوچ کر کہ شائد تنگ آ کر یہ خود ھی طلاق کا مطالبہ کر ڈالے اور ہم خاندان میں بدنامی سے بچ جائیں آخر جب ہر طرح سے ظلم و ستم کر کے دیکھ لِیا تو ایک دن تنگ آ کر خود ھی وہ خط دِکھا کر اُسے گھر سے نکال دیا.. بچی اپنی بہن کے گھر رہنے آ گئی اور جاتی بھی کہاں.. وہ تروتازہ چہرہ مُرجھا گیا تھا صِرف ایک لفظ طلاق سے… کچھ عرصہ گزرا نہیں کہ بہن کے سسرالیوں نے بھی تنگ کرنا شروع کر دیا، بڑی بہن کا جینا حرام کر دیا کہ بھیجو اِسے اپنے گھر یا کہیں اور شادی کرو اِسکی.. ہم پر بوجھ بنی بیٹھی ھے… فاطمہ کو بھی مختلف طریقوں سے ذہنی اذیت دینے لگے… اپنے دوسرے بیٹے سے اُسکی شادی بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اُس معصوم پر طلاق کا دھبہ جو لگ گیا تھا اور ہمارا معاشرہ عُمریں اور کردار کب دیکھتا ھے بس یہ دیکھتا ھے کہ لڑکی کنواری ھے یا نہیں… آخر تنگ آ کر ایک رات وہ معصوم بچی گھر سے بھاگ گئی… کہاں گئی کسی کو کچھ پتا نہ چلا…
دو سال بعد بہنوئی کا کسی کام سے ایدھی سینٹر جانا ھُوا تو فاطمہ نظر آئی وہاں.. ذہنی توازن بگڑا ھُوا… اور اپنی عُمر سے بیس سال بڑی لگ رھی تھی… خدا جانے دو سال میں کہاں کہاں دھکے کھا کے ایدھی پہنچی یہ تو اللّٰہ جانے.. لیکین ایک معصوم شریف نیک کردار بچی کی ساری زندگی صِرف اِس وجہ سے اُجڑ گئی کہ ایک تو اُسکے ماں باپ حیات نہ تھے دوسرا اُس کو طلاق ھو چُکی تھی… یہ جو لوگ طلاق یافتہ کو اپنانے سے بھاگتے ہیں اِسکا یہی مطلب ھُوا نہ کہ وہ صِرف عورت کے جسم سے شادی کرنا چاہتے ہیں کردار سے نہیں…