اڑا کر کاگ شیشہ سے مئے گُل گوں نکلتی ہے شرابی جمع ہیں مے خانہ میں ٹوپی اچھلتی ہے…
شرابی جمع ہیں مے خانہ میں ٹوپی اچھلتی ہے
بہارِ مے کشی آئی چمن کی رت بدلتی ہے
گھٹا مستانہ اٹھتی ہے ہوا مستانہ چلتی ہے
زخود رفتہ طبیعت کب سنبھالے سے سنبھلتی ہے
نہ بن آتی ہے ناصح سے نہ کچھ واعظ کی چلتی ہے
یہ کس کی ہے تمنا، چٹکیاں لیتی ہے جو دل میں
یہ کس کی آرزو ہے جو کلیجے کو مسلتی ہے
وہ دیوانہ ہے جو اس فصل میں فصدیں نہ کھلوائے
رگِ ہر شاخِ گل سے خون کی ندی ابلتی ہے
سحر ہوتے ہی دم نکلا غش آتے ہی اجل آئی
کہاں ہوں میں نسیمِ صبح پنکھا کس کو جھلتی ہے
تمتع ایک کا ہے ایک کے نقصاں سے عالم میں
کہ سایہ پھیلتا جاتا ہے جوں جوں دھوپ ڈھلتی ہے
بنا رکھی ہے غم پر زیست کی یہ ہو گیا ثابت
نہ لپکا آہ کا چھوٹے گا جب تک سانس چلتی ہے
قرار اک دم نہیں آتا ہے خونِ بے گنہ پی کر
کہ اب تو خود بہ خود تلوار رہ رہ کر اگلتی ہے
جہنم کی نہ آنچ آئے گی مے خواروں پہ او واعظ
شراب آلودہ ہو جو شے وہ کب آتش میں جلتی ہے
نہ دکھلانا الٰہی ایک آفت ہے شبِ فرقت
نہ جو کاٹے سے کٹتی ہے نہ جو ٹالے سے ٹلتی ہے
یہ اچھا شغل وحشت میں نکالا تو نے اے حیدرؔ
گریباں میں الجھنے سے طبیعت تو بہلتی ہے
(سید علی حیدرؔ نظم طباطبائی)
[ad_2]