نورجہاں نے 1959ء میں لاہور کے اندر منعقد کی گئی ایک نجی محفل میں فیض احمد فیض کی…

[fb_vid id=”905086829605659″]نورجہاں نے 1959ء میں لاہور کے اندر منعقد کی گئی ایک نجی محفل میں فیض احمد فیض کی مشہور زمانہ غزل “دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے” سازوں کے بغیر گائی۔ فیض احمد فیضؔ بھی رونقِ محفل تھے۔شعر مکمل کرنے کے بعد فیض صاحب کی “واہ” بطور داد سنی جا سکتی ہے۔ آخر میں فیض صاحب نے اپنا کلام خود بھی سنایا۔ احباب کے ذوق کی تسکین کی خاطر یہ کلپ پیش ہے۔
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ویراں ہے میکدہ گم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دل نا کردہ کار کے
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صِلا کیوں نہیں دیتے
مِٹ جائے گی مُخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
پیمانِ جُنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو! گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے
بربادیِ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے
شورشِ زنجیر بسم اللہ
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ
درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جُنوں والے
دریدہ دامنوں والے ،پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ
گنو سب داغ دل کے ، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرسش ہورہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالۂ شب گیر بسم اللہ
ستم کی داستاں ، کُشتہ دلوں کا ماجرا کہیے
جو زیر لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہیے
مُصرِ ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہیے
لگی ہے حرفِ نا گُفتہ پر اب تعزیر بِسم اللہ
سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بِسم اللہ
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ
(فیض احمد فیض)
[ad_2]