باغ یونہی جھانکا تھا روشنی نے ابھی باغ میں دور تک اندھیرا تھا بادلوں پر بنا…
یونہی جھانکا تھا روشنی نے ابھی
باغ میں دور تک اندھیرا تھا
بادلوں پر بنا ہوا تھا باغ
باغ میں وہم کے تھے سب اشجار
باغ میں تھے گماں کے سارے پھول
دھند سی راستوں پہ چھائی تھی
اور رستوں کا کچھ نہیں تھا سراغ
شرق اور غرب یا شمال و جنوب
کوئی ملتا نہ تھا طلوع و غروب
کس طرف آسماں کدھر ہے زمیں
دیکھنے والا کوئی تھا ہی نہیں
باغ میں دور تک اندھیرا تھا
یونہی گزرا ہوا کا اک جھونکا
یا پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سے
پانیوں میں ہوئی کوئی ہلچل
یا فرشتے کی نرم آہٹ سے
چونک کر دیکھا اک کلی نے ابھی
خاک کی منجمد نگاہوں پر
خواب روشن کیا کسی نے ابھی
باغ کے بے پنہ اندھیرے میں
آنکھ کھولی ہے زندگی نے ابھی
ثمینہ راجا
[ad_2]