غزل شفیق خلؔش ۔ کہتے تھے ہراِک بات پہ مُجھ سے جو، وہی تو چُپ سادھ کے بیٹھے رہے ج…
شفیق خلؔش
۔
کہتے تھے ہراِک بات پہ مُجھ سے جو، وہی تو
چُپ سادھ کے بیٹھے رہے جب دل کی کہی تو
ڈر یوُں بھی رہے اُن کی، نہیں آج نہیں سے
دِل میں ہی مِرے دِل کی اگر بات رہی تو
مِلتی نہ محبّت وہ الگ بات ہے، لیکن
پھیلاتے، تم اپنا کبھی دامانِ تہی تو
جائیں گے ضرُوراُن سے مُلاقات کو، پہلے
ہو دُور مُلاقات میں حائل سی نہی تو
ہے دِید کی خواہش پہ جُنوں خیز طبیعت
کیا بدلے گی حالت، نہ ہُوئی اُن سے بہی تو
فرمائیں گے اِیفا میں کوئی عُذر نیا وہ
ہوتا ہےکِئے وصل کے وعدے پہ یہی تو
گو جان پہ بن آئی تھی فُرقت میں ہماری
یادوں سے ہی کانٹوں بھری ہر رات سہی تو
بد دِل نہ خلؔش ایسے، غزل لکھنے سے ہوتے
ہوتی جو کبھی اُن سے ذرا داد دہی تو
شفیق خلؔش