“تو آیا تھا” نسیم سید
تو آیا تھا
بھور کرن
نوبت باجی تھی
دھوپ شگن
گھنگھرو چھنکے تھے
انگنائی میں
اس کونے سے اس کونے تک
پون کی پائل چہک رہی تھی
تو آیا تھا
تو آٰیا تو
بھوبل میں دہکی چنگاری
سرک کے تھوڑا باہر آئی
ہم دونوں کے ہونٹوں پر
سرشار سی چپ کو
جوڑ جوڑ کے
چنگاری نے آگ بنائی
آگ کی ترچھی سی بوچھار میں
بھیگتی خوشیاں
پنکھ چھپکتی ناچ رہی تھیں
تو آیا تھا۔۔۔
تو آیا تو
عشق کی گبرو چھائوں سے ٹک کے
خوابوں کے سوندھے کلہڑ میں
ہم دونوں نے
گھونٹ گھونٹ اپنے کو پیا تھا
اپنا جیون ذائقہ
ہونٹوں نے چکھا تھا
ایک سانس نے
ہم دونوں کی ساری عمر کو جی ڈالا تھا
تو آیا تھا
نسیم سید