اُس کو حاصل جہاں میں راحت ہے – سلمان رفیق
اُس کو حاصل جہاں میں راحت ہے
جس کے دل میں یقینِ وحدت ہے
میں نے جانا ہے ، رات خلوت میں
خامشی میں عجیب لذت ہے
میں محبت کو روگ کیوں سمجھوں؟
کہ محبت تو میری عادت ہے
چھوڑ دیتے ہیں یار مشکل میں
دشمنوں کی بڑی عنایت ہے
طور جینے کے سب سکھا دے گی
اہلِ دل کی نظر میں وسعت ہے
کاٹ دی ہے غلام کی شہ رگ
سانس لینے کی اب اجازت ہے!
عمر کے ـآخری مراحل میں
اک نئی زندگی کی چاہت ہے
اِس مشینوں کے دور میں سلمانؔ
آدمی کی بھی کوئی قیمت ہے !!