زندگی کے میلے میں ، خواہشوں کے ریلے میں

زندگی کے میلے میں ، خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں ، اسقدر جھمیلے میں
وقت کی روانی ہے ، بخت کی گِرانی ہے
سخت بے زمینی ہے ، سخت لا مکانی ہے
ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
تم کو جو سنانی ہے
بات گو ذرا سی ہے
بات عمر کی بھر کی ہے
(عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں!
درد کے سمندر میں
ان گنت جزیرے ہیں ، بے شمار موتی ہیں)
آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا
بات اُس دئیے کی ہے
بات اُس گِلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے ، بات رتجگے کی ہے
راستے میں کیسے ہو؟
بات تخلیئے کی ہے
تخلیئے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے
پیار کرنے والوں کو اِک نگاہ کافی ہے
تم کو جو سنانی ہے
بات گو ذرا سی ہے
بات وہ پتے کی ہے
ہو سکے تو سُن جائو ایک دِن اکیلے میں
زندگی کے میلے میں ، خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں اسقدر جھمیلے میں
تبصرے بند ہیں.