پاکستان اور شیر قورمہ
میرے مرحوم والد محترم Karachi Nuclear Power Plant میں پڑھاتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے بتایا تھا کہ جب بھی ان کے ادارے میں کوئی Technical کام آتا جیسے turbine لگانے کے لۓ تو جاپان سے لوگوں کو بلایا جاتا تھا۔ آج عید کے اس موقع پر مجھے ان کی یہ بات یاد آرہی ہے۔ کیونکہ گزشتہ دنوں کچھ ایسی خبریں پڑھیں کہ دل بہت زیادہ اداس ہوگیا تھا کوئی کہتا ہے کہ پاکستان میں دین اور سیاست کو الگ رکھنا چاہئے۔ کوئی کہتا ہے کہ اسلام کے بنیادی قوانین کو ہونا ہی نہیں چاہئے ۔ کچھ کا خیال ہے کہ پاکستان مغربی ریاست کی طرح ہوجاۓ ۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان سعودی عرب، شام اور عراق کی طرح ہو جائے۔ گویا کہ ایک عجیب قسم کی کھچڑی پک رہی ہے اور جس کا سب سے زیادہ برا اثر ہماری نئ نسل پہ پڑ رہا ہے۔انہیں پتہ ہی نہیں چل رہا کہ ان کا تعلق کس قبیلے سے ہے۔ آخر کیا بات ہے کہ ہم پاکستان بننے کی وجوہات کو نہیں سمجھ پائے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ بھی ایک Technical بات ہو؟ اگر ہم ان ہستیوں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں جنہوں نے پاکستان کہ لئے خواب دیکھے، قربانیاں دیں، پاکستان کو وجود میں لائے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ وہ لوگ تھے جوماڈرن ذہنیت رکھنے کے باوجود ایمان کی تازگی سے سرشار تھے۔ وہ نہ Orthodox تھےاور نہ ہی conservative تھے۔ وہ Liberal conservatismکو مانتے تھے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ بہت زیادہ مذہبی خیال نہیں رکھتے تھے۔اگر ایسا ہوتا تو شاعرِ مشرق یوں نہ کہتے کہ Iss Raaz Ko Ab Fash Kar Ae Rooh- e-Muhammad (S.A.W.) Ayaat-e-Elahi Ka Nigheban Kidhar Jaye! جہاں ایمان کی سرشاری تھی ان لوگوں میں، وہیں یہ لوگ بہت اچھے سیاست دان بھی تھے۔ انہیں پتہ تھاکہ کیسے یہ Technical کام کریں اور کس طرح مختلف نظرئے رکھنے والے لوگوں کو متحد کیا جائے۔ Religious diversity کو کنٹرول کرنا اور اسلامی نظرۓ کی ساکھ کو بھی قائم رکھنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کوئی turbine لگا رہے ہوں۔ سنگا پور کی ایک کانفرنس میں ڈاکٹر رویسہ ولیم نےایک بہت اجھا لیکچر اسی بات پہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، جب آپ ایک وطن میں رہتے ہیں تو آپ کو عزت کے ساتھ رہنا چاہئے۔ ملک میں امن، انصاف اور یک جہتی جبھی ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کا احترام شروع کردیں۔ ہمیں سڑکیں بنانے کی بجائے سب سے پہلے اسلامی مدارس کو بہتر بنانا چاہیے۔ جب ایک قران پڑھانے والے کو ہزار روپے اور او لیول پڑھانے والے کو سات ہزار روپے دیئے جايں گے تو وہاں اسی طرح کی کنفیوزڈ سوسایٹی جنم لیتی ہے۔ اور دہشت گردی کے اسی طرح کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ حکومت کرتے وقت دینی اخلاقیات کا ایک بہت اہم کردار ہوتا ہے مثلا انصاف، مشورہ مکالمہ برداشت اور بہت کچھ ۔ہم سے ابھی دینی اخلاقیات کا مذہبی turbine ہی نہیں لگ پارہا ہے اور ہم اسلامک قوانین پہ لڑ رہیں ہیں؟ چلیۓ جی لڑتے رہیئے۔ میرا شیر قورمہ تو ختم ہوا۔ میری طرف سے تمام عالم اسلام کو عید مبارک ۔