سو لفظی کہانی نا خدا
وہ سیاسی جماعت کا نا خدا تھا
معصوم افراد کے ووٹ نے ملک کا ناخدا بھی بنایا
حاکمیت ملی تو گردن میں اکڑ نمایاں ہوئی
اسے لگا وہ جسکی چاہے اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے
مگر خواہش اور حقیقت میں فرق تو ہوتا ہے ناں
جبھی مبیّنہ جلاوطنی ہوئی
عوام میں زندہ رہنے کیلیئے بیانات بھی ضروری ہوتے ہیں
غریبوں کا سچا ہمدرد ثابت کرنے کی دوڑ میں بہت کچھ کہنا اور کچھ تو کرنا پڑتا ہے
لهذا عرب ملک میں اٹھائیس ڈشز کے عشائیے کے بعد بیان جاری کیا گیا
”غریبی کا دکھ مجھ سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا ”