وہ آرزو کہ دلوں کو اداس چھوڑ گئی مری زباں پہ سخن…
وہ آرزو کہ دلوں کو اداس چھوڑ گئی
مری زباں پہ سخن کی مٹھاس چھوڑ گئی
لکھی گئی ہے مری صبح کے مقدر میں
وہ روشنی جو کرن کا لباس چھوڑ گئی
اٹھی تھی موج جو مہتاب کے کنارے سے
زمیں کے گرد فلک کی اساس چھوڑ گئی
یہ کس مقامِ تمنا سے بے خودی گزری
یہ کس کا نام پسِ التماس چھوڑ گئی
… More