جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے و…
جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے
وہ نظر نظر سے گلے ملے تو بجھے چراغ بھی جل گئے
یہ شکستِ دید کی کروٹیں بھی بڑی لطیف و جمیل تھیں
میں نظر جھکا کے تڑپ گیا، وہ نظر بچا کے نکل گئے
نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں کوئی روشنی
یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے
جو سنبھل سنبھل کے بہک گئے وہ فریب خوردۂ راہ تھے
وہ مقامِ عشق کو پا گئے جو بہک بہک کے سنبھل گئے
… More