“وہ پاپ سنگر نہ بن سکا، یہی اس کا جرم ٹھہرا”
امجد فرید صابری صرف ایک قوال تھا ۔ اسی لئے مارا گیا ۔ فن قوالی کی روایت کو زندہ رکھنا اس کا جرم ٹھہرا ۔ اس کے قتل کا اعتراف کرنے والے طالبانی گروپ کا کہنا تھا کہ اسے توہین مذہب کے جرم میں قتل کیا گیا ۔ ہاں وہ صرف قوال ہی تو تھا ۔ گلوکار ہوتا تو فرقہ بندی اور توہین کے اس الزام سے بچا رہتا ۔ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی لاش پر گدھ منڈلاتے رہے ۔ علاقائی سیاست میں اس کا جھکائو ایم کیو ایم کی طرف تھا ۔ اس ایم کیو ایم نے فورا اس کے قتل کا الزام مصطفی کمال گروپ کے سر ڈالنے کی کوشش کی ۔ کوئی سی پیک کے مخالفین کو اس کا قاتل قرار دیتا رہا ۔ کوئی بھتہ مافیا کی کارستانی قرار دیتا رہا ۔ یہ ایک ایسا قتل تھا جس کا کریڈیٹ لینے کو کئی قاتل لائن میں ہاتھ باندھے کھڑے تھے ۔ ہسپتال سے اس کی لاش نکلی تو چھپپا سے چھیننے کی کوشش کی گئی، چھیپا بھی جنازے کے ساتھ قبر تک چلے آئے ۔ ایک طرف وہ توہین مذہب کا مجرم قرار دیا گیا ۔ دوسری جانب درگاہوں کے سجادہ نشین فوٹو سیشن کے لئے بھاگے چلے آئے ۔ عجیب لاش تھی جس کے ایک طرف سجادہ نشین اور پیرو مرشد لائن بنائے کھڑے تھے ۔ دوسری طرف گلوکار کھڑے رو رہے تھے ۔اس نے مرنے کے بعد بھی آگ و پانی کو ملا دیا ۔ ایک رخ پر سیاست دان ہاتھ باندھے کھڑے تھے تو دوسرے رخ پر کھلاڑی اور عوام کا ہجوم تھا ۔ شہادت کی گواہی دینے کے وقت لوگ سیلفیاں اور مووی بنانے کو مرے جا رہے تھے ۔ امجد فرید صابری کی قوالی کو فرقہ بندی کی بھیینٹ چڑھانے والوں نے شاید یہ کبھی نہ سوچا کہ وہ محض گلوکار ہوتا تو اس الزام سے بھی بچ جاتا ۔ اس کی پہلی البم غزلوں کی تھی جب ماں نے کہا تم قوالی کے لئے ہو ۔ یہ پاپ میوزک اور غزلیں چھوڑ دو ۔ اس نے ماں کا حکم مان لیا اور باپ کی دوسری برسی پر باپ کی روایت کو کندھوں پر اٹھا لیا ۔ یہی اس کا جرم ٹھہرا ۔ راحت فتح علی کی طرح سوچتا تو شاید بچ جاتا ۔ اس کے پانچ بچے ہیں ۔ سب سے بڑے کی عمر 14 سال سے کم ہے ۔ شادی کو محض 14 سال ہوئے تھے ۔ 40 سال عمر تھی ۔ سوچتا ہوں ابھی تو کئی خواب دیکھنے تھے لیکن اس نے کئی جرم بھی تو کئے تھے ۔ پوش علاقے کی بجائے لیاقت آباد رہا ۔ کہتا تھا یہاں چھینک بھی آئے تو پورا محلہ اکٹھا ہو جاتا ہے ۔ یہ گلیاں چھوڑ کر کیسے جائوں ؟ واقعی اسے گولیاں لگیں تو پورا محلہ اکٹھا ہو گیا ۔ سبھی موبائل سے ویڈیو بناتے رہے ۔ کسی نے اسے سنبھالنے کی کوشش نہ کی ۔ا بھی اس کے بدن میں جان باقی تھی ۔ حلق میں مگر پانی ڈالنے والا کوئی نہ تھا ۔ وہ کچی گلیاں چھوڑ کر نہ جانے اور اپنوں میں رہنے کا سزا وار تھا ۔ اس نے نہ تو راحت فتح علی خان بن کر قوالی کے فن کو پاپ میوزک کی بھینٹ چڑھایا اور نہ ہی جنید جمشید بن پایا ۔ وہ سادہ سا ہنس مکھ قوال ہی رہا ۔ انہی گلیوں میں مارا گیا جہاں کے خمیر سے اٹھا تھا ۔ عمر بھر جھولی بھرنے کی دعا کرتا رہا اور ظالموں نے وہ جھولی گولیوں سے بھر دی ۔ اب ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ وہ جاں بحق ہوا یا شہید ہوا؟ سوچتا ہوں ۔ وہ سولہ سال کی عمر میں یتیم ہوا ۔ اس کا سب سے بڑا بچہ 13 سال کی عمر میں یتم کیا گیا ۔ یہ سلسلہ اس کی اگلی دو نسل تک بھی چلا تو یہ دھرتی بانجھ ہو جائے گی ۔ ہمارے اگلے فنکار جنم لینے سے قبل ہی یتیم ہونے لگیں گے ۔ اسے یہ علم نہ تھا کہ کیوں مارا جا رہا ہے ۔ اس کا قاتل بھی اتنا ہی معصوم نکلا ۔ اسے یہ خبر نہ تھی کہ شکار کیوں مروایا جا رہا ہے۔ فرق شاید کسی کو نہیں پڑا مگر بچوں کا شفیق باپ اور بیوی کا دیوانہ، سسر کو منا کر لو میرج کرنے والا شوہر اس دنیا میں نہیں رہا۔ وہ حمد، نعت اور صوفیانہ کلام سناتا رہا اور فرقہ واریت کا سزاوار قرار پایا ۔ وہ پاپ سنگر نہ بن سکا ۔ یہی اس کا جرم ٹھہرا.