100لفظوں کی کہانی (بااُصول)
وہ ہمیں اُس راستے میں روزانہ ملتی ،
جس سے میں اور مرشد دفتر جاتے ۔
اُسے چند سکے دے دیتے ،شناسائی ہو گئی۔
گدڑی میں لال سی ایک مسکراتی بچی بھی ہوتی۔
ایک صبح جیب ٹٹولی ۔ سکے نہیں تھے۔ نہ ہی چھوٹا نوٹ۔
سوچا گزر جائیں، پھر رُک کر تھوڑا بڑا نوٹ پکڑا دیا۔
دوسرے دن گاڑی حسب معمول روکی،
سخی بن کر چندسکے اُس کی جانب بڑھائے۔
اُس نے لینے سے انکار کر دیا ۔
بیٹا کل تم زیادہ پیسے جو دے گئے تھے۔
کہا خوشی سے دے رہا ہوں، رکھ لو،
بولی!بیٹا بھکاری ہوں، مگر “با اصول” ہوں۔وہ ہمیں اُس راستے میں روزانہ ملتی ،
جس سے میں اور مرشد دفتر جاتے ۔
اُسے چند سکے دے دیتے ،شناسائی ہو گئی۔
گدڑی میں لال سی ایک مسکراتی بچی بھی ہوتی۔
ایک صبح جیب ٹٹولی ۔ سکے نہیں تھے۔ نہ ہی چھوٹا نوٹ۔
سوچا گزر جائیں، پھر رُک کر تھوڑا بڑا نوٹ پکڑا دیا۔
دوسرے دن گاڑی حسب معمول روکی،
سخی بن کر چندسکے اُس کی جانب بڑھائے۔
اُس نے لینے سے انکار کر دیا ۔
بیٹا کل تم زیادہ پیسے جو دے گئے تھے۔
کہا خوشی سے دے رہا ہوں، رکھ لو،
بولی!بیٹا بھکاری ہوں، مگر “با اصول” ہوں۔
سید شاہد عباس