پھر ترے خواب حسیں شام میں آئے ہوئے ہیں
پھر ترے خواب حسیں شام میں آئے ہوئے ہیں
دیکھ ہم بار دگر دام میں آئے ہوئے ہیں
دیکھی بھالی ہیں سبھی شہر وفا کی گلیاں
ہم بھی اس کو چہء بدنام میں آئے ہوئے ہیں
آج پھر اس نے محبت کی نگہ ڈالی ہے
آج پھر گردش ایام میں آئے ہوئے ہیں
ہم نے اک عمر جہاں خواب لٹائے اپنے
پھر اسی قریہء نیلام میں آئے ہوئے ہیں
ان کی یادوں سے معطر ہے مرا گھر ایسے
جیسے خود ہی وہ دروبام میں آئے ہوئے ہیں
دل میں وہ زخم محبت سے چھپا رکھے ہیں
تیری جانب سےجو انعام میں آئے ہوئے ہیں
وہ گلابی سے خدو خال مجسم ہو کر
پھر صفی آج مرے جام میں آئے ہوئے ہیں
ڈاکٹر صغیر صفی