حقیقی دوست
اداسیاں رقص کر رہی تھیں۔۔۔تنہائیوں کا ایسا ہجوم کہ تل دھرنےکو جگہ نہ تھی۔۔خاموشی کے دشت میں خودکلامی کی سرگوشیاں شور مچا رہی تھیں۔۔دہکتے سورج کی حدت ہرے لان کو جُھلسا رہی تھی۔۔چہار جانب لُو کا عالم تھا۔۔۔اپنوں کی بے وفائی دل پگھلا رہی تھی۔۔۔اندر ُہو کا عالم تھا۔۔ویران کمرے میں بے مقصد چلتے اچانک نظر۔کھڑکی کے پار جامن کے پیڑ پر مچلتی فاختاوَں کی دلآویز محفل پر جا ٹھری ۔۔۔۔۔ دل کوبھاتا یہ منظر اردگرد دندناتی اداسیوں سے جھگڑنے لگا تو دور کھڑی غمزدہ سی خوشی بے اختیار مسکرانے لگی۔۔۔پیاری فاختاوَں تمہارا شکریہ۔۔۔تم نے میری تنہائی کے کینوس پر کیا حسین رنگ بکھیرے ہیں۔۔۔دل انجانے سے لطف سے سرشار ان کا ممنون ہورہا تھا کہ اچانک نظر نے کروٹ لی اور سڑک کے پار نفرت کے سمندر میں ڈوبتے دو نفوس پر جا ٹِکی۔۔دماغ خوامخواہ ہی سانپ سے بدتر زہر اُگلتے انسانوں کا موازنہ خوشی کے شادیانے بجاتی امن کی ان فاختاوَں سے کرنے لگا۔۔۔عین اسی لمحے ضمیر کے شفاف شیشے میں میرے دل کا عکس مجھے اپنی ہی نظروں میں شرمسار کرگیا۔۔۔دم توڑتی ہمت کو یکجا کیا۔۔۔ضمیر کی انگلی تھامے احتسابی نگاہوں سے دل کے دروازے پر دستک دی۔۔۔دروازہ کھلتے ہی اندھیرے نے استقبال کیا۔۔۔۔البتہ کونوں کھدروں میں ٹ٘مٹماتے امید کے دیے پاوَں پڑ گئے۔۔۔بس پھر کیا تھا۔۔۔ندامت کے بادل گرج اُٹھے ۔۔۔اور اشکوں کی ایسی جھڑی لگی کی آنکھوں کے کٹورے ابل پڑے ۔۔۔اشکوں سے تر۔۔۔۔ رحمت کی طلب میں اُٹھے ہاتھ لرزنے لگے۔۔۔سانسیں ہچکیوں میں بدل گئیں۔۔۔سسکیوں کا سیلاب روَف ورحیم ہستی کی بےپایاں رحمت کے سمندر میں ڈبوتا چلا گیا۔۔۔۔نجانے کب ُ”سکون” کا تحفہ لیے نیند کی پری آئی تھی۔۔۔۔۔۔آنکھ کُھلی تو گہرے سکون کی چادر اوڑھے خود کو جائے نماز پر پایا۔۔۔۔امید کے ٹ٘مٹماتے دیے اطمینان کی شمع بن کر دل کی تاریکیاں دور کر رہے تھے۔۔۔اور میں سوچ رہی تھی جو اللہ کو دوست بنالے وہ کبھی تنہا نہیں ہوتا۔بے شک دل کا سکون اس کے ذکر میں پنہاں ہے۔۔
سدرہ رحمان