باہَر باہَر پھیل گئی ‘ وہ دھوپ کڑی ‘ جو اندر تھی
باہَر باہَر پھیل گئی ‘ وہ دھوپ کڑی ‘ جو اندر تھی
رفتہ رفتہ سوکھ گئی ‘ وہ شاخ ہری ‘ جو اندر تھی
اب تو ہر اظہار سے جیسے’ جھانک رہے ہیں سارے دُکھ
کہاں گئی ؟ وہ بچّوں جیسی نرم ہنسی ؟ جو اندر تھی
اک رستے پر چلتے چلتے ‘ بھول گئی مَیں سب رستے
چاروں جانب جا نکلی ‘ وہ ایک گلی ‘ جو اندر تھی
پہلے اِِن آنکھوں میں اتری ‘ پھر لہجے ‘ پھر چہرے پر
پھر ملبوس تک آ پہنچی ‘ وہ بے رنگی ‘ جو اندر تھی
میں نے امکانات کی حد تک ‘ جا کر خود کو ڈھونڈا ہے
لفظوں میں ڈھلنے نہیں پائی ‘ حیرانی ‘ جو اندر تھی
اکثر اپنے جسم کی مّٹی ‘ گوندھی اپنےاشکوں سے
تب اِتنے رنگوں میں اُبھری ‘ معدومی ‘ جو اندر تھی
یوں تو لکھتی رہتی ہوں مَیں ‘ سب کچھ کورے کاغذ پر
لفظوں میں آ ہی نہیں پائی’ خوش فکری ‘ جو اندر تھی