یہ الگ بات ہے ساقی کہ مُجھے ہوش نہیں ورنہ مَیں کُچ…

یہ الگ بات ہے ساقی کہ مُجھے ہوش نہیں
ورنہ مَیں کُچھ بھی ہُوں اِحسان فراموش نہیں
نکہتِ گُل بھی ہے اِک وحشتِ نازُک کی مِثال
بارِ ہستی سے کوئی چیز سبکدوش نہیں
ہاۓ اُس رِند کے کمزور اِرادوں کا عُروج
میکدہ پی کے بھی جو غافِل و مدہوش نہیں
ہم اگر حشر میں ہوگئے رُسوا یارب
ہم کو یہ کہنا پڑے گا تُو خطا پوش نہیں
کیوں نہ بازار کی اِس وقت ذرا سیر کریں
مَیں بھی مدہوش نہیں آپ بھی مدہوش نہیں
مئے پِلائ ہے تو اب نعرہِ مستی کو نہ روک
زِندگی ساقیا اِک گِریہِ خاموش نہیں
کِس نے فرمائ تھی تلقینِ جُنُوں صُبحِ ازل
آج تک ہم کو گریباں کا کوئ ہوش نہیں
آہ وہ قُرب کہ ہے دُوریِ افزُوں کی دلِیل
ہائے وہ وصل کے آغوش در آغوش نہیں
اِس مُروّت سے وہ معبُود ہُوا ہے عُریاں
مُجھ کو آدابِ عِبادت کا بھی کُچھ ہوش نہیں
ہوش خمیازہِ مستی ہے تو مطلب یہ ہے
جِسکو کُچھ ہوش ہے اُسکو بھی کوئی ہوش نہیں
بیخودی میں مِرا آغوش ہے مُجھ سے آگے
شرم مت کیجئے مَیں شاملِ آغوش نہیں
کِسطرح بیٹھ گئے وہ مِرے پہلُو میں عدمؔ
شک یہ پڑتا ہے کہ شاید مِرا آغوش نہیں۔۔۔!
کلام عبدالحمید عدمؔ
آواز جگجیت سنگھ[fb_vid id=”777669062608137″]
[ad_2]