وہ نگاہیں کیا کہوں کیونکر رگِ جاں ہو گئیں دل میں ن…
دل میں نشتر بن کے ڈوبیں اور پنہاں ہو گئیں
تھیں جو کل تک جلوہ افروزی سے شمعِ انجمن
آج وہ شکلیں چراغِ زیرِ داماں ہو گئیں
اک نظر گھبرا کے کی اپنی طرف اس شوخ نے
ہستیاں جب مٹ کے اجزائے پریشاں ہو گئیں
اڑ کے دل کی خاک کے ذرے گئے جس جس طرف
رفتہ رفتہ وہ زمینیں سب بیاباں ہو گئیں
چند تصویریں مری جو مختلف وقتوں کی تھیں
بعد میرے زینتِ دیوارِ زنداں ہو گئیں
اس کے شامِ غم پہ صدقے ہو مری صبحِ حیات
جس کے ماتم میں تری زلفیں پریشاں ہو گئیں
(عزیز لکھنوی)
[ad_2]