خالی خالی رستوں پہ بے کراں اداسی ہے ثروت زہرا خالی…
ثروت زہرا
خالی خالی رستوں پہ بے کراں اداسی ہے
جسم کے تماشے میں روح پیاسی پیاسی ہے
خواب اور تمنا کا کیا حساب رکھنا ہے
خواہشیں ہیں صدیوں کی عمر تو ذرا سی ہے
راہ و رسم رکھنے کے بعد ہم نے جانا ہے
وہ جو آشنائی تھی وہ تو نا شناسی ہے
ہم کسی نئے دن کا انتظار کرتے ہیں
دن پرانے سورج کا شام باسی باسی ہے
دیکھ کر تمہیں کوئی کس طرح سنبھل پائے
سب حواس جاگے ہیں ایسی بد حواسی ہے
زخم کے چھپانے کو ہم لباس لائے تھے
شہر بھر کا کہنا ہے یہ تو خوں لباسی ہے
…..
DISPOSABLE – ثروت زہرا
(عالمی یوم خواتین)
میں تمہاری جیب میں پڑا ہوا
ٹشو پیپر ہوں ؟
جسے تمہارے زخم کے انتظار کے
برآنے تلک
تمہاری جیب میں رکھا جاسکے گا
یا میں تمہارے پسندیدہ پرفیومز میں سے
کسی بھی نام سے
جنون کے بازار سے خریدی گئی
پرفیوم کی بوتل ہوں ؟
جسے تم جب چاہے لگاؤ
اور جب چاہو ڈریسنگ ٹیبل پہ
رکھے انتظار کے سپرد کرسکوگے
یا میں تمہارے شیونگ بلیڈ میں سے
کسی بھی ایک نام سے خریدا گیا
بلیڈ ہوں ؟
جو فی الحال زنگ سے بچایا جارہا ہے
اور استعمال کے بعد
اسے پھنکا جاسکے گا
یا میں تمہاری جائززندگی سے
چھپا کے کھولے گئے
بینک اکاؤنٹ کی چیک بک ہوں
جوتمہارے پرس کے اندرونی خانوں میں
تمہاری یادگار تصاویر کے ہمراہ
اندھیرے کانٹے کا شرف حاصل کرسکے گی ؟
یامیں
جدید حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق
پیک کیا ہوا ٹن گلاس ہوں
جو کسی وقت اور کسی مقام پر
پیاس بجھانے کے بعد
ڈسپوزآف کیا جاسکے گا