دن کے پلو میں باندھی ہے مہکی رات کی خوشبو لے جا مس…
لے جا مسافر زاد ِ سفر میں ان باغات کی خوشبو
تیز ہوا بکھراتی رہتی ہے یہ زر شاخوں کا
مٹی میں ملتی رہتی ہے گرتے پات کی خوشبو
دل کے آتے جاتے موسم یادوں کے اوراق
یاد ہیں اب تک اس کی باتیں اور ہر بات کی خوشبو
یاد آئے تو اب بھی میرا تن من بھیگتا جائے
کچے آنگن میں پہلی پہلی برسات کی خوشبو
تم آنکھوں میں اترو تو مہکیں اس بن کے رستے
تم ہو میرے ساتھ تو پھر پھیلے اس رات کی خوشبو
سانسوں میں اب بھی ہے اس کی قربت کا احساس
ہاتھوں میں اب بھی ہے جاناں اس کے ہاتھ کی خوشبو
جاناں ملک