جس راہ سے اٹھا ہوں وہیں بیٹھ جاؤں گا میں کارواں ک…
میں کارواں کی گرد سفر ہوں ذرا ٹھہر
ذولفقار علی بخاری
1904 – 1975
مے کا شہر میں کال پڑا ہے قحطِ بادہ گساراں ہے
اس پر بھی یہ موسمِ گل کہلاتا فصلِ بہاراں ہے
مے کا شیشہ مانگنے والو موسم بس کی بات نہیں
اٹھنے کو تو ابر اٹھا لیکن ابرِ بے باراں ہے
یاروں کی یاری سے مطلب ٹہرا دل والوں کا کام
یعنی صدق و صداقت جو کچھ بھی ہے نذرِ یاراں ہے
کوئ دل والا بنجارہ آ نکلے تو سودا ہو
یہ بھی شہرِ نگاراں ہے وہ بھی شہرِ نگاراں ہے
اب میں اپنے غم کو دیکھوںیا دیکھوں غم خواروں کو
میری غم خواری کی خاطر انبوہِ غم خواراں ہے
اور کہیں تو کیا بہلے گا چل اے دل اس محفل میں
چل اس محفل میں جو محفل محفلِ سینہ فگاراں ہے
صحرا تو صحرا ہیںلیکن شہروں کی بھی خیر نہیں
جنگل جنگل نگری نگری آمدِ عرصہ سواراں ہے
کوئ بلبل بول اٹھے یا بادِ صبا پیغام سناۓ
غنچہ غنچہ گلشن کا دلدادۂ خوش گفتاراں ہے
منزل منزل خاک اڑائ تیز رو دل کی تیزی نے
جلدی منزل طۓ کر لینا کارِ کم رفتاراں ہے
عزت دار بنا پھرتا ہوںلیکن یہ معلوم نہیں
اب وہ لوگ کہاں ہیں جن کو پاسِ عزت داراں ہے