حضرتِ میر تقی میر کے چند لازوال اشعار .. آہ کرنے م…
..
آہ کرنے میں دم کو سادھے رہ
کہتے ہیں دل سے ہے جگر نزدیک
….
گلی تک تیری لایا تھا ہمیں شوق
کہاں طاقت کہ اب پھر جائیں گھر تک
….
دکھائی دیں گے ہم میّت کے رنگوں
اگر رہ جائیں گے جیتے سَحر تک
….
میں ترکِ عشق کر کے ہوا گوشہ گیر میرؔ
ہوتا پھروں خراب جہاں میں کہاں تلک
…
بارے سر شکِ سرخ کے داغوں سے رات کو
بستر پر اپنے سوتے تھے ہم بھی بچھائے گُل
…
اک آن میں بدلتی ہے صورت جہان کی
جلد اس نگار خانے سے کر انتقال چل
…
سبزہ نورستہ رہ گزار کا ہوں
سر اُٹھایا کہ ہو گیا پامال
….
مَندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل
….
اس مہلتِ دو روزہ میں خطرے ہزار ہیں
اچھا ہے رہ سکو جو خبردار آج کل
…
گلزار ہو رہی ہے مرے دم سے کُوئے یار
اک رنگ پر ہے دیدۂ خوں بار آج کل
…
روز و شب وا رہنے سے پیدا ہے میرؔ آثارِ شوق
ہے کسو نظارگی کا رخنۂ دیوار چشم
…
جیتے ہیں تو دکھاویں گے دعوائے عندلیب
گُل بِن خزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر کہ ہم
…
اس جستجو میں اور خرابی تو کیا کہیں
اتنی نہیں ہوئی ہے صبا دربدر کہ ہم
….
جاؤ نہ دل سے منظرِ تن میں ہے جا یہی
پچھتاؤ گے اُٹھو گے اگر اس مکاں سے تم
….
آہستہ اے نسیم کہ اطراف باغ کے
مشتاقِ پر فشانی ہیں اک مشتِ خاک ہم
…
مدت ہوئی کہ چاکِ قفس ہی سے اب تو میرؔ
دکھلا رہے ہیں گُل کو دلِ چاک چاک ہم
…
کرتے ہیں گفتگو سحر اُٹھ کر صبا سے ہم
لڑنے لگے ہیں ہجر میں اُس کے ہوا سے ہم
..
ہوتا نہ دل کا تا یہ سرانجام عشق میں
لگتے ہی جب کے مر گئے ہوتے بَلا سے ہم
…
چھوٹا نہ اُس کا دیکھنا ہم سے کسو طرح
پایانِ کار مارے گئے اس ادا سے ہم
…
داغوں ہی سے بھری رہی چھاتی تمام عمر
یہ پھول گُل چُنا کیے باغِ وفا سے ہم
…
غافل یہ اپنی دیدہ ورائی سے ہم کو جان
سب دیکھتے ہیں پر نہیں کہتے حیا سے ہم