یہ کس حسین کے گیسو سنوارے جاتے ہیں کہ ہم پھر آینہ …
کہ ہم پھر آینہ لے کر پکارے جاتے ہیں
سمندروں میں ہمیں لوگ اتارے جاتے ہیں
وہ اور ہیں جو کنارے کنارے جاتے ہیں
یہی تو دیکھ رہے ہیں، یہی تو دیکھا ہے
جو پیار کے لیے جیتے ہیں، مارے جاتے ہیں
لہو کے پھولوں کی ہے مانگ ہر زمانے میں
ہر ایک دور میں قاتل سنوارے جاتے ہیں
ہمیشہ خاک نشینوں نے یہ دکھایا ہے
سوار کیسے زمیں پر اتارے جاتے ہیں
::
کلیم عاجز