فیض بہت کمال ھے۔ رُوح سیراب ھو جاتی ھے فیض کو پڑھ …
تیری صُورت جو دلنشیں کی ھے
آشنا شکل ھر حسیں کی ھے
حُسن سے دل لگا کے ھستی کی
ھر گھڑی ھم نے آتشیں کی ھے
صبحِ گل ھو کہ شامِ مئے خانہ
مدح اُس رُوئے نازنیں کی ھے
شیخ سے بے ھراس ملتے ھیں
ھم نے توبہ ابھی نہیں کی ھے
ذکرِ دوزخ ، بیانِ حُور و قصور
بات گویا ، یہیں کہیں کی ھے
اَشک تو کچھ بھی رنگ لا نہ سکے
خُوں سے تر آج آستیں کی ھے
کیسے مانیں حرم کے سہل پسند
رَسم جو عاشقوں کے دیں کی ھے
“فیض احمد فیض”
بشکریہ
https://www.facebook.com/Inside.the.coffee.house