سید میر محمد احمد صدیق شاہ قاتل ….. اتنا نہ فری…
…..
اتنا نہ فریبِ الفت میں یہ جذبۂ کامل آجاۓ
ہر گام قریبِ منزل ہو ، ہر گام پہ منزل آجاۓ
جلوؤں کی نمائش ہے اس میں خود ان کی رہائش ہے اس میں
اب وادئ ایمن سے کہدو اس دل کے مقابل آجاۓ
اتنی تو عطا ہو جانیں ، اتنے تو عطا ہوں دل مجھ کو
ہر ناز پہ اک جاں قرباں ہو ، ہر غمزے پہ اک دل آجاۓ
یہ تیری نظر کی رنگینی یہ تیرے قدم کی رعنائ
جس رنگ پہ ساقی تو چاہے اس رنگ پہ محفل آجاۓ
بیدادِ محبت کا اے دل محشر میں مزا آجاۓ گا
اک سمت سے میں ہوں داد طلب اک سمت سے قاتل آجاۓ
اے خضر کسی نے دنیا میں ایسا بھی سفینہ دیکھا ہے
ہر موج سے ساحل پیدا ہو ہر موج میں ساحل آجاۓ
اے عشق کی وسعت کیا کہنا اے شوقِ شہادت کیا کہنا
قاتلؔ ہی تڑپ کر مقتل مین خود صورتِ بسمل آجاے
……
بہزاد لکھنوی
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
آتا ہے جو طوفاں آنے دے، کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں خود بہتا ہوا ساحل آ جائے
اے شمع، قسم پروانوں کی، اتنا تُو میری خاطر کرنا
اس وقت بھڑک کر گُل ہونا جب بانیِ محفل آ جائے
اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تم پہ میرا دل آ جائے
اے رہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں بس یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے
اس عشق میں جاں کو کھونا ہے، ماتم کرنا ہے، رونا ہے
میں جانتا ہوں جو ہونا ہے، پر کیا کروں جب دل آ جائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا، آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے
اے دل کی خلش چل یونہی سہی، چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
…..