ایک زمین مرزا داغؔ دہلوی جلیلؔ مانکپوری ۔۔۔۔۔ داغؔ…
مرزا داغؔ دہلوی
جلیلؔ مانکپوری
۔۔۔۔۔
داغؔ
مِلاتے ہو اُسی کو خاک میں جو دِل سے مِلتا ہے
مِری جاں چاہنے والا بڑی مُشکِل سے مِلتا ہے
کہیں ہے عید کی شادی کہیں ماتم ہے مقتل میں
کوئی قاتِل سے مِلتا ہے کوئی بِسمِل سے مِلتا ہے
پسِ پردہ بھی لیلیٰ ہاتھ رکھ لیتی ہے آنکھوں پر
غُبار ناتواں قیس جب محمل سے مِلتا ہے
بھرے ہیں تُجھ میں وہ لاکھوں ہُنر اے مجمعِ خُوبی
مُلاقاتی تِرا گویا بھری محفل سے مِلتا ہے
مُجھے آتا ہے کیا کیا رشک وقتِ ذبح اُس سے بھی
گَلا جِس دم لپٹ کر، خنجر قاتِل سے مِلتا ہے
بظاہر با ادب یوں حضرتِ ناصِح سے مِلتا ہُوں
مُرِیدِ خاص جیسے مُرشِدِ کامِل سے مِلتا ہے
مِثال گنجِ قارُوں اہلِ حاجت سے نہیں چُھپتا
جو ہوتا ہے سخی خود ڈُھونڈ کر سائل سے مِلتا ہے
جواب اِس بات کا اُس شوخ کو کیا دے سکے کوئی
جو دِل لے کر کہے کم بخت تُو کِس دِل سے مِلتا ہے
چُھپائے سے کوئی چُھپتی ہے اپنے دِل کی بیتابی
کہ ہر تارِ نفس اپنا رگِ بِسمِل سے مِلتا ہے
عدم کی جو حقیقت ہے وہ پُوچھو اہلِ ہستی سے
مسافر کو تو منزل کا پتا منزل سے ملتا ہے
غضب ہے داغؔ کے دِل سے تُمہارا دِل نہیں مِلتا
تُمہارا چاند سا چہرہ مۂ کامِل سے مِلتا۔۔۔!
۔۔۔۔۔
جلیلؔ
محبّت رنگ دے جاتی ہے جب دِل دِل سے مِلتا ہے
مگر مُشکِل تو یہ ہے دِل بڑی مِشکِل سے مِلتا ہے
کشش سے کب ہے خالی تشنہ کامی تشنہ کاموں کی
کہ بڑھ کر موجۂ دریا لبِ ساحِل سے مِلتا ہے
لُٹاتے ہیں وہ دولت حُسن کی باور نہیں آتا
ہمیں تو ایک بوسہ بھی بڑی مُشکِل سے مِلتا ہے
گَلے مِل کر وہ رُخصت ہو رہے ہیں ہائے کیا کہنے
یہ حالت ہے کہ بِسمِل جِس طرح بِسمِل سے مِلتا ہے
شہادت کی خوشی ایسی ہے مُشتاقِ شہادت کو
کبھی خنجر سے مِلتا ہے کبھی قاتِل سے مِلتا ہے
وہ مُجھ کو دیکھ کر کُچھ اپنے دِل میں جھینپ جاتے ہیں
کوئی پروانہ جب شمعِ سرِ محفل سے مِلتا ہے
خُدا جانے غُبارِ راہ ہے یا قیس ہے لیلیٰ
کوئی آغوش کھولے پردۂ محمل سے ملتا ہے
جلیلؔ اُس کی طلب سے باز رہنا سخت غفلت ہے
غنیمت جانیے اُس کو کہ وہ مُشکِل سے مِلتا ہے۔۔۔!