ایک زمین غیر مُردّف ھم قافیہ حضرت علامّہ مُحَمَّد …
حضرت علامّہ مُحَمَّد اقبالؒ
حضرت واصف علی واصفؒ
۔۔۔۔۔
حضرتِ اقبالؔؒ
مِٹا دیا مِرے ساقی نے عالمِ مَن و تُو
پِلا کے مُجھ کو مئے لَآ اِلٰہَ الَّا ھُو
نہ مے نہ شعر نہ ساقی نہ شورِ چنگ و رُباب
سُکُوت کوہ و لب جوے و لالہ خود رُو
گدائے مے کدہ کی شان بے نیازی دیکھ
پہنچ کے چشمۂ حیواں پہ توڑتا ہے سبُو
مِرا سبُوچہ غنیمت ہے اِس زمانے میں
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صُوفیوں کے کدُو
مَیں نو نیاز ہُوں مُجھ سے حِجاب ہی اَولیٰ
کہ دِل سے بڑھ کے ہے میری نِگاہ بے قابُو
اگرچہ بحر کی موجوں میں ہے مقام اُس کا
صفائے پاکیِ طِینت سے ہے گُہر کا وُضُو
جمیل تر ہیں گُل و لالہ فیض سے اِس کے
نِگاۂ شاعرِ رنگیں نوا میں ہے جادُو۔۔۔!
۔۔۔۔۔
حضرتِ واصفؔؒ
دیے ہیں تُو نے زمانے کو بھر کے جام و سبُو
مَیں تشنہ لب ہُوں مِرے واسطے جِگر کا لہُو
بھٹک رہا تھا مَیں سُود و زیاں کے صحرا میں
تِرے دیار میں لائ مُجھے تِری خوشبُو
جب اپنی آنکھ سے دیکھا تو سب مِرے اغیار
تِری نِگاہ سے دیکھا تو مَیں ہی اپناعدُو
تِری تلاش مُجھے میرے سامنے لائ
مَیں آئینے میں جو اُترا تو رُبَرُو تھا تُو
حِصارِ وقت کو مَیں توڑ کر نِکل نہ سکا
تِرے جمال کا پہرہ لگارہا ہر سُو
یہ اور بات تُمھیں وہ کبھی نہ یاد آئیں
تُمھارے ہاتھ سے جِن کے خُون کی بُو
کلی کی آنکھ کے کُھلنے کی دیر تھی واصفؔ
خُدا کو یاد کِیا ہے گُلوں نے کرکے وُضُو۔۔۔!