جو کان لگا کر سنتے ہیں کیا جانیں رموز محبت کے اب …
اب ہونٹ نہیں ہلنے پاتے اور پہروں باتیں ہوتی ہیں
….
حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کی شعلہ جب لہرائی اڑ کے چلا پروانہ بھی
…..
دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر
…..
محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے
بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے
…..
کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا
وہ میرا سمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا سب کہہ جانا
….
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی
….
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
….
آرزو لکھنوی