جب بھی لائی گردشِ ایّام تیرے شہر میں ہم پر آیا …
ہم پر آیا اِک نیا الزام تیرے شہر میں
اِک ذرا سی بات کیا پھیلی کہ افسانہ بنی
ہو گئے ہم مُفت میں بدنام تیرے شہر میں
غیر تو پھر غیر ہیں اپنے بھی ناصح بن گئے
جب لیا بُھولے سے تیرا نام تیرے شہر میں
کیوں نہ ہم بھی دُور کر لیں زندگی بھر کی تھکن
خیمہ زن ہے گیسوؤں کی شام تیرے شہر میں
لوگ تو آغاز ہی میں دُشمنِ جاں ہو گئے
جانے اب کیا ہو مِرا انجام تیرے شہر میں
قتیل شفائی
از:-روزن ۶۷
انتخاب
سفیدپوش
[ad_2]