رَختِ شَب سجے ہوئے شہر کے مکینو! مجھے نہ دیکھو! …
سجے ہوئے شہر کے مکینو!
مجھے نہ دیکھو!
میں بے زماں بے مکاں کا اُداسی کے کھردرے ہاتھ سے
تراشیدہ “سنگ زادہ ”
میرے بدن پر قبائے سادہ
مسافتوں سے اَٹا لِبادہ،
میں خواہشوں کے ہجوم میں بھی
خود اپنے خوابوں کا آدمی ہوں
میں کتنی صدیوں کی بے بسی ہوں
سجے شہر کے مکینو!
مجھے نہ دیکھو،
میں اجنبی ہوں!
میں اجنبی ہوں ،خود اپنے بیتے ہوئے مہ و سال کی خراشوں سے
اجنبی ہوں
مرے قبیلے پہ
ہجرتوں کے سفر میں
شبخوں ہوا نے مارا
میں اجنبی ہوں
مرے پس و پیش دُھوپ ہی دُھوپ ناچتی ہے
مرے یمین و یسار لاشوں کے سرخ ٹیلے
میں کس کا ماتم کروں عزیزو!
میں کس کو آواز دوں کہ میں تو
تمام “لاشوں” سے اجنبی ہوں
سجے ہوئے شہر کے مکینو!
مجھے نہ دیکھو
کہ میرا سایہ!
تمہاری رنگوں نہائی صبحیں
چبا نہ ڈالے
کہ میرا سایہ!
کسی کھنڈر میں پرانی محراب کا دیا ہے
نہ میرے سینے میں روشنی ہے
نہ میرے لب پہ کوئی دعا ہے!!
سجے ہوئے شہر کے مکینو
مجھے نہ دیکھو
میری کٹی انگلیوں کی زَد میں
قلم کی جنبش!
تراشتی ہے!
تمام نوحے اُداسیوں کے
تمام لہجے
اجاڑ بستی کے باسیوں کے!!
مجھے نہ دیکھو کہ میری آنکھیں
اُجاڑ صدیوں کے زائچے ہیں
کہ میرے ہونٹوں پہ
موت کو پھانکتی ہواؤں کے ذائقے ہیں!
سجے ہوئے شہر کے مکینو!
مجھے نہ دیکھو
میں اپنی میت کا آپ وارث!!
میں اپنے بے آسرا لہو کا
خود آپ “برزخ”
میرے نفس میں اترتی صبحوں
بکھرتی شاموں کی
خود کشی ہے
حذر کرو میری قربتوں سے
کہ میرا ماحول “دوزخی” ہے
سجے ہوئے شہر کے مکینو!
مجھے نہ دیکھو
مجھے نہ چھیڑو،
نہ میرے دکھ کا سفر کرو تم
ہوا کو اتنی خبر کرو تم!
ہوا جو مجھ سے الجھ رہی ہے!
ہوا جو مٹی میں دفن ہوتی اداسی سے
اجنبی ہے
ہوا جو رستے مٹا رہی ہے
ہوا جو مرے اُجاڑ دِل کا دِیا بجھانے کی ضد میں
منہ زور ہو چلی ہے
ہوا کو اِتنی خبر کرو تم
کہ میرے احساس کا اثاثہ!
یہ میرا اپنا اُجاڑ دل ہے
جو خیمہءِ جاں کے کنجِ ویراں کا
آخری کم نفس دِیا ہے
یہی دِیا ہے
جو شام ویراں میں
صبحِ اُمید کا سبب ہے
یہ جاں بہ لب ہے
ہوا کو اتنی خبر کرو تم
یہی دِیا،کائنات میری
یہی متاعِ حیات میری
اُداسیوں سے اَٹے ہوئے دَشتِ بےکراں میں
” یہی مسافر کا “رخت شب ” ہے
محسن نقوی
از:-رَختِ شب ص ۱۱۰/۱۱۱/۱۱۲/۱۱۳/۱۱۴
انتخاب
سفیدپوش
[ad_2]