سفر میں ہیں مسلسل ہم کہیں آباد بھی ہونگے ہوئے نا…
ہوئے ناشاد جو اتنے تو ہم دل شاد بھی ہونگے
زمانے کو برا کہتے نہیں ہم ہی زمانہ ہیں
کہ ہم جو صید لگتے ہیں ہمیں صیاد بھی ہونگے
بُھلا بیٹھے ہیں وہ ہر بات اس گذرے زمانے کی
مگر قصّے اُس موسم کے ان کو یاد بھی ہونگے
ہر ایک شے ضد سے قائم ہے جہانِ خوابِ ہستی میں
جہاں پر دَشّت ہے آثارِ ابر و باد بھی ہونگے
منیر افکار جو تیرے یہاں برباد پھرتے ہیں
کسی آتے سمے کے شہر کی بنیاد بھی ہونگے
منیر نیازی
از:-ایک اور دریا کا سامنا(کُلّیاتِ مُنیر) ص ۵۸۶
انتخاب
سفیدپوش
[ad_2]