سامنے منزل تھی ، اور پیچھے اُس کی آواز رُکتا تو س…
رُکتا تو سفر جاتا ، جو چلتا تو بچھڑ جاتا
منزل کی بھی حسرت تھی ، اور اُس سے محبت بھی
اے دل تُو ھی بتا ، میں اُس وقت کِدھر جاتا ؟؟
مُدت کا سفر بھی تھا ، اور برسوں کی شناسائی
رُکتا تو بکھر جاتا ، جو چلتا تو مر جاتا
سزا ایسی ملی مجھ کو ، زخم ایسے لگے دل پہ
چھپاتا تو جگر جاتا ، دِکھاتا تو بکھر جاتا
“شکیل احمّد ترابی”
بشکریہ
https://www.facebook.com/Inside.the.coffee.house