”مثنوی قادر نامہ کا تعارف“ غالب کے سات بچے تھے لی…

”مثنوی قادر نامہ کا تعارف“
غالب کے سات بچے تھے لیکن افسوس اُن میں سے کوئی بھی چھ یا سات ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہ پایا ۔ اپنی اُسی تنہائی اور بعض دیگر وجُوھات کی بنا پر غالب نے زین العابدین خاں عارف کو متبنیٰ (اپنا منہ بولا بیٹا) بنا لیا تھا جو اُن کی بیگم صاحبہ کے بھانجے تھے۔
عارف خوش ذوق شاعر تھے اور اُنہوں نے غالب کی شاگردی بھی اختیار کر لی تھی لیکن عین جوانی میں ، پینتیس سال کی عمر میں، عارف بھی وفات پا گئے، عارف ؔ کے دو بیٹے تھے، مرزا باقر علی خان ، اور مرزا حسین علی خان۔عارف مرحُوم کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کیلیے غالب نے ”مثنوی قادر نامہ“ لکھی تھی۔
دراصل یہ مثنوی ایک طرح کا لغت نامہ ھے جس میں غالبؔ نے عام استعمال کے فارسی اور عربی الفاظ کے ھندی یا اردو مترادف بیان کیے ھیں تا کہ پڑھنے والوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ھو سکے
بقولِ غالب
جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اُس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں
پہلی بار یہ مثنوی ١٨٥٦ء میں شائع ھُوئی تھی۔ یہ مثنوی غالب نے لکھی تو بچوں کے لیے تھی لیکن ھے بڑوں کے بڑے کام کی چیز، یقین نہ آئے تو ضیا محی الدین زبانی سُن لیجیے۔
آپ کی بصارتوں کی نذر ھے۔
سلامت رھیں۔[fb_vid id=”293844484638929″]
بشکریہ
https://www.facebook.com/Inside.the.coffee.house