جو دیکھیے تو کرم عشق پر ذرا بھی نہیں جو سوچیے…
جو سوچیے کہ خفا ہیں تو وہ خفا بھی نہیں
وہ اور ہوں گے جنہیں مُقَدَرِت ہے نالوں کی
ہمیں تو حوصلۂ آہ نارسا بھی نہیں
حد طلب سے ہے آگے جنوں کا اِستغِنا
لبوں پہ آپ سے ملنے کی اب دُعا بھی نہیں
حُصُول ہو ہمیں کیا مُدعا محبت میں
ابھی سلیقۂ اظہارِ مُدعا بھی نہیں
شگُفتِ گُل میں بھی زخمِ جگر کی صورت ہے
کسی سے ایک تَبَسُم کا آسرا بھی نہیں
زہے حیات طبیعت ہے اعتدال پسند
نہیں ہیں رِند اگر ہم تو پارسا بھی نہیں
سنا تو کرتے تھے لیکن صباؔ سے مل بھی لیے
بھلا وہ ہو کہ نہ ہو آدمی بُرا بھی نہیں
صباؔ اکبر آبادی
المرسل: فیصل خورشید