فیض نے یہ نظم ١٩٧٤ء میں ڈھاکہ سے واپسی پر لکھی ھم…
ھم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد ؟؟
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار؟؟
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد ؟؟
تھے بہت بے درد لمحے ، ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صُبحیں ، مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاھا ، پر شکستِ دل نے مہلت ھی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے ، مناجاتوں کے بعد
اُن سے جو کہنے گئے تھے ، فیضؔ جاں صدقہ کیے
اَن کہی ھی رہ گئی ، وہ بات سب باتوں کے بعد
”فیض احمّد فیض“
بشکریہ
https://www.facebook.com/Inside.the.coffee.house