”سرود“ موت اپنی ، نہ عمل اپنا ، نہ جینا اپنا کھو …
موت اپنی ، نہ عمل اپنا ، نہ جینا اپنا
کھو گیا شورشِ گیتی میں قرینہ اپنا
ناخدا دُور، ھوا تیز ، قریں کامِ نہنگ
وقت ھے ، پھینک دے لہروں میں سفینہ اپنا
عرصۂ دھر کے ھنگامے , تہِ خواب سہی
گرم رکھ ، آتشِ پیکار سے سینہ اپنا
ساقیا رنج نہ کر ، جاگ اُٹھے گی محفل
اور کچھ دیر ، اُٹھا رکھتے ھیں پینا اپنا
بیش قیمت ھیں , یہ غم ھائے محبت مت بُھول
ظلمتِ یاس کو ، مت سونپ خزینہ اپنا
”فیض احمّد فیض“
بشکریہ
https://www.facebook.com/Inside.the.coffee.house