نقشِ فریادی فیض کی لاجواب تخلیق ھے۔ غالب کے دیوان …

نقشِ فریادی فیض کی لاجواب تخلیق ھے۔ غالب کے دیوان کے پہلے شعر کا مصرعہ ”نقشِ فریادی ھے کس کی شوخی تحریر کا“ تھا یہ نام اُسی مصرعے سے لیا گیا۔
اُسی نقشِ فریادی سے چند نظمیں فیض کی اپنی آواز میں سنیں تو عجیب سی کیفیت طاری ھو جاتی ھے۔ آپ بھی سنیں۔
”رقیب سے“
آ کہ وابستہ ھیں ، اُس حُسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اِس دل کو ، پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بُھلا رکھی تھی ، دنیا ھم نے
دَھر کو دَھر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ھے ترے قدموں سے ، وہ راھیں جن پر
اُس کی مدھوش جوانی نے عنایت کی ھے
کارواں گزرے ھیں جن سے اُسی رعنائی کے
جِس کی اُن آنکھوں نے بے سُود عبادت کی ھے
تجھ سے کھیلی ھیں وہ محبوب ھَوائیں جن میں
اُس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ھے
تجھ پہ بھی بَرسا ھے اُس بام سے مہتاب کا نُور
جس میں بیتی ھُوئی راتوں کی کسک باقی ھے
تُو نے دیکھی ھے وہ پیشانی ، وہ رخسار ، وہ ھونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ھم نے
تجھ پہ اُٹھی ھیں ، وہ کھوئی ھُوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ھے ، کیوں عمر گنوا دی ھم نے ؟؟
ھم پہ مشترکہ ھیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ھم نے اِس عشق میں کیا کھویا ھے کیا سیکھا ھے
جز ترے اور کسی کو سمجھاؤں ، تو سمجھا نہ سکوں
”فیض احمد فیض“
”نقشِ فریادی“ سے انتخاب[fb_vid id=”393592764544367″]
بشکریہ
https://www.facebook.com/Inside.the.coffee.house