آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے ظلمت کدے میں میرے شبِ غم…
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر ، سو خموش ہے
دیکھو مجھے، جو دیدہء عبرت نگاہ ہو
میری سنو، جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
میں غریب شاعر دس برس سے تاریخ لکھنے اور شعر کی اصلاح دینے پر متعلق ہوا ہوں۔ خواہ اس کو نوکری سمجھو، خواہی مزدوری جانو، اس فتنہ و آشوب میں کسی مصلحت میں میں نے دخل نہیں دیا۔ صرف اشعار کی خدمت بجالاتا رہا اور نظر اپنی بے گناہی پر، شہر سے نکل نہیں گیا۔ میرا شہر میں ہونا حکام کو معلوم ہے۔ مگر چونکہ میری طرف بادشاہی دفتر میں سے یا مخبروں کے بیان سے کوئی بات نہیں پائی گئی، لہٰذا طلبی نہیں ہوئی، ورنہ جہاں بڑے بڑے جاگیر دار بلائے ہوئے یا پکڑے ہوئے آئے ہیں، میری کیا حقیقت تھی؟ غرض کہ اپنے مکان میں بیٹھا ہوں دروازہ سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بہت بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے، شہر میں ہے کون جو آوے؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پاتے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست یازدہم مئی سے آج تک یعنی شنبہ پنجم دسمبر 1857ءتک بدستور ہے۔