مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا یہ حادثہ ت…
یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا
میں رقص کرتا رہا ساری عمر وحشت میں
ہزار حلقۂ زنجیرِ بام و در میں رہا
ترے فراق کی قیمت ہمارے پاس نہ تھی
ترے وصال کا سودا ہمارے سر میں رہا
یہ آگ ساتھ نہ ہوتی تو راکھ ہو جاتے
عجیب رنگ ترے نام سے ہنر میں رہا
اب ایک وادیِ نسیاں میں چھُپتا جاتا ہے
وہ ایک سایہ کہ یادوں کی رہگزر میں رہا
ساقیؔ فاروقی
المرسل: فیصل خورشید