ندا فاضلی کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا کہیں زم…
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہیں بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا
…..
دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
کچھ لوگ یونہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
دیکھا ہے جسے میں نے کوئی اور تھا شاید
وہ کون تھا جس سے تری صورت نہیں ملتی
ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت
رونے کی یہاں ویسے بھی فرصت نہیں ملتی
نکلا کرو یہ شمع لیے گھر سے بھی باہر
کمرے میں سجانے کو مصیبت نہیں ملتی
….