عشق میں کوئی زماں اور نہ مکاں ہوتا ہے وہ دو عالم س…
وہ دو عالم سے الگ ایک جہاں ہوتا ہے
شدّتِ شوق کا اللہ رے فسوں! اُف رے فریب!
اُن کی نفرت پہ محبّت کا گماں ہوتا ہے
صرف اک دل ہی وہ معبد ہے، وہ اک معبدِ عشق
جس میں ناقوس ہم آوازِ اذاں ہوتا ہے
اُن سے اِس طرح جدا ہو کے ہم آئے ہیں کہ ہائے
آنکھ سے جیسے کوئی اشک رواں ہوتا ہے
حُسن کے حق سے کوئی عہدہ برآ کیا ہو گا؟
عشق کا حق بھی ادا ہم سے کہاں ہوتا ہے؟
اپنی سوزش میں بھی ہوتا ہے جہنّم محسوس
غیر کی آگ کا شعلہ بھی دھواں ہوتا ہے
سننے والے ہی پہ ہے منحصر اندازۂ غم
ورنہ جو حال ہے وہ کس سے بیاں ہوتا ہے؟
غیر کی آگ میں جلنے کا مزہ ہے کچھ اور
ورنہ پروانہ بھی خود شعلہ بہ جاں ہوتا ہے
ہائے اِس عشق میں انساں کا جواں مر جانا
جیسے کمبخت اِسی دن کو جواں ہوتا ہے
عشق میں ہائے طبیعت کا وہ عالم بسملؔ
عالمِ عشق بھی جب دل پہ گراں ہوتا ہے
(بسملؔ سعیدی)
[ad_2]