محشرِ خواب و خیالات لیے بیٹھے ہیں تم …
تم سے اُمیدِ ملاقات لیے بیٹھے ہیں
تم نہیں ہو تو عجب عالمِ تاریکی ہے
صبح ہوتی ہی نہیں رات لیے بیٹھے ہیں
ایسی کیا بات ہے دم بھر کے لیے آ جاؤ
کب سے ہم چھوٹی سی اک بات لیے بیٹھے ہیں
آپ بے رنگیِ موسم سے نہ گھبرائیں کہ ہم
آپ کے واسطے برسات لیے بیٹھے ہیں
ہم نے دو لفظ کہے تھے کہ بگڑ کر بولے
آپ تو شکوؤں کی بارات لیے بیٹھے ہیں
عمر تو یونہی کٹی عمر کا کیا ذکر کریں
چند بیتے ہوئے لمحات لیے بیٹھے ہیں
اہلِ حُسن آ ہی گئے آپ سے ملنے کو فضاؔ
آپ بھی خوب کرامات لیے بیٹھے ہیں
فضاؔ اعظمی
المرسل: فیصل خورشید