مری شامِ غم کو وہ بہلا رہے ہیں لکھا ہے یہ خط…
لکھا ہے یہ خط میں کہ ہم آ رہے ہیں
وہ بے اختیار آج یاد آ رہے ہیں
ہمارے تصور کو مہکا رہے ہیں
محبت کے جلوے نظر آ رہے ہیں
نگاہوں سے پردے اُٹھے جا رہے ہیں
نہیں شکوۂ تشنگی مَے کشوں کو
وہ آنکھوں سے مے خانے برسا رہے ہیں
غم عاقبت ہے نہ فکرِ قیامت
پئے جا رہے ہیں جئے جا رہے ہیں
انہیں کون کہتا ہے ابرِ خراماں
یہ جو مَے کدے سے اُڑے آ رہے ہیں
ٹھہر جا ذرا اور اے دردِ فرقت
ہمارے تصور میں وہ آ رہے ہیں
وہ جانِ بہار آج آئے گی اختر
کنول حسرتوں کے کھلے جا رہے ہیں
اختر شیرانی
از:-کُلیاتِ اختر شیرانی ص ۳۷۰
انتخاب
سفیدپوش